Den kristne påskefortellingen //عیسائیوں کی ایسٹر کے متعلق قصے
جب حضرت عیسیٰ بالغ ہوئے تو وہ اپنے بارہ حواریوں کے ساتھ دنیا کے سفر پہ نکل گئے اور لوگوں کو خدا کے بارے میں بتانے لگے۔حضرت عیسیٰ ایک نیک آدمی تھے جو غرباء اور بیماروں کی مدد کرتے تھے.
اُن کے بہت سے دوست بنے لیکن کچھ دشمن بھی بن گئے ۔اُن کے ملک میں کچھ رہنما تھے جنھیں یہ نہیں پسند تھا کہ لوگ اُن سے زیادہ حضرت عیسیٰ کی بات کو مانیں ۔انھیں ڈر تھا کہ حضرت عیسیٰ کو بہت قوت اور طاقت مل جائے گی ۔
پام اتوار

ایسٹر سے پہلے ایک اتوار کو حضرت عیسیٰ اپنی حواریوں کے ساتھ یروشلم کی طرف ایسٹر منانے نکلے ۔انھوں نے اپنے دو حواریوں سے ایک گدھا ڈھونڈ کر لانے کو کہا ۔
وہ اس گدھے پر سوار ہوئے اور یروشلم کی جانب چل پڑے ۔وہاں اُن کا ایک بادشاہ کی طرح استقبال ہوا ۔جب وہ یروشلم پہنچے تو لوگوں نے خوشی میں زور زور سے نعرے لگانا شروع کر دیا ” ہوسیانا ، ہوسیانا ،ہمارا بادشاہ آ گیا” ۔وہ جھنڈوں کے طور پہ کھجوروں کی شاخوں کو ہلاتے جاتے تھے۔ { ہوسیانا کا مطلب تقریبا” ہرُا ہے }
ایسٹر سے قبل آخری جمعرات ۔ عیسائیوں کی عبادت جس میں رات کا کھانا ہوتا ہے قائم کیا گیا

شام میں اپنے ساتھ ایسٹر کا کھانا کھانے کے لئے حضرت عیسیٰ نے اپنے حواریوں کو جمع کیا۔ اُس زمانے میں یہ عام بات تھی کہ لوگ اندر جانے سے پہلے اپنے پا ؤں دھویا کرتے تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ باہرننگے پیر جاتے تھے یا چپلوں کے ساتھ چلا کرتے تھے اور اسلئے اُن کے پیر بہت گندے ہو جا یا کرتے تھے ۔حضرت عیسیٰ نے گھر کے دروازے پر تمام حواریوں کے پیر کو خود سے دھوئے۔ یہ انھوں نے اس لئے کیا کہ سب کو دکھا سکیں کہ سب کو ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہئے۔

جب تمام لوگ بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے تو حضرت عیسیٰ نے انھیں بتایا کہ آج ہم آخری مرتبہ ساتھ جمع ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا ” وہ وقت دور نہیں کہ جب مجھے پکڑ کر قید کر لیا جائے گا اور میرا انتقال ہو جائے گا۔”انھوں نے یہ بھی بتایا کہ میرے حواریوں میں سے ایک شخص مجھے قید کروانے میں فوج کی مدد کرے گا ۔

یہوداس جو کہ حضرت عیسیٰ کے حواری تھے ان سے ناراض تھے ۔ وہ ناراض تھے کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ حضرت عیسیٰ ایک امیر اور طاقت ور بادشاہ بن جائیں گے، اور اس طرح وہ بھی حضرت عیسیٰ کے ساتھ محل میں رہیں گے اور تمام آسائیشوں کا فائدہ اٹھائیں گے۔جب انھوں نے دیکھا کہ حضرت عیسیٰ کو پیسے اور طاقت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے تو انھوں نے فوجیوں کو بتا د یا کہ حضرت عیسیٰ کہاں ملیں گے۔اس بات کی وجہ سےانھیں چاندی کی ۳۰ اشرفیاں ملیں۔کھانے کے بعد کافی شام ہو گئی تھی ۔حضرت عیسیٰ اپنے ساتھ حواریوں کو لے کر باغ میں آ گئے۔ وہاں انھوں نے خدا سے دُعا کی ۔
یہوداس فوجیوں کو باغ تک لے آئے اور حضرت عیسیٰ کا پتہ بتا دیا۔ حضرت عیسیٰ کو پہلے سے ہی علم تھا کہ یہوداس ایسا کرنے والا ہےاور وہ فوجیوں کے ساتھ اپنی مرضی سے چلے گئے۔
ایسٹر سے قبل کا جمعہ ۔ تفتیش، فیصلے، مصلوب اور دفن
حضرت عیسیٰ کو سمجھ میں آ گیا تھا کہ اُ ن کی موت قریب ہے۔ خدا نے یہ ارادہ بہت پہلے سے کیا ہوا تھا ۔
حضرت عیسیٰ جب سے دنیا میں آئے تھے تب سے اُن کو پتہ تھا کہ ایک دن ایسا ہو گا۔حضرت عیسیٰ کی پیدائش کا مقصد یہ تھا کہ وہ تمام دنیا کے انسانوں کے برے اعمال کی سزا کاٹیں گے،اور اب وہ وقت آ گیا تھا ۔ سپاہی اُن کو اپنے رہنمائوں کے پاس لے گئے ۔ وہ یہ نہیں یقین کرتے تھے کہ حضرت عیسیٰ خدا کے بیٹے ہیں۔ وہ کہتے :
عیسیٰ کو مرنا چاہئے کیونکہ یہ اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہتا ہے۔انھوں نےحضرت عیسیٰ کو ایک صلیب پہ کیلوں سے ٹنگا دیا ۔اس جگہ کا نام گول گاٹا ہے۔ یہاں حضرت عیسیٰ کا انتقال ہوا ۔

۲۰۰۰ ہزار سال پہلے مجرموں کو سزا دینے کا یہی طریقہ تھا حضرت عیسیٰ کے حواریوں اور دوستوں کے لئے یہ ایک المناک دن تھا۔انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ خدا نے ان کے لئے ایک زبردست خوشخبری تیار کی ہوئی تھی۔
انھیں زیادہ دیر افسوس میں نہیں رہنا تھا۔
ایسٹر کی شام– قبر کی بہت سختی سے حفاظت

جب حضرت عیسیٰ کا انتقال ہو گیا تو ان کے دوستوں نے انھیں پہاڑ کے غار میں رکھ دیا ۔ یہ غار انھیں ایک یوسف نامی شخص سے ملا تھا۔ جس کی خواہش تھی کہ وہ خدا کے بیٹے کو اپنا آخری تحفہ دیں۔انھوں نے اس غار کے دروازے کو ایک بڑے پتھر سے بند کر دیا ۔
رہنما وں نے اپنے دو سپاہیوں کو سختی سےغار کی حفاظت کے لیے بھیجا تاکہ کوئی حضرت عیسیٰ کی لاش کو اٹھا کر نہ لے جائے۔
ایسٹر کا پہلا دن
اتوار کی صبح کو ایک زلزلہ آیا ۔ ایک فرشتہ آسمان سے نیچے آیا اور ان پتھروں کو غار کے داخلی دروازے سے ہٹا دیا۔جب سپاہیوں نے فرشتے کو دیکھا تو وہ خوف سے کانپنے لگے اور بھاگ گئے ۔ کچھ وقفے کے بعد حضرت عیسیٰ کے حواریوں میں سے ایک دوست آ گئیں جن کا نام ماریا ماگدالینا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ پتھر وہاں سے غائب ہے تو وہ غار میں داخل ہو گئیں۔ غار کے اندر اس نے ایک فرشتہ دیکھا جس نے کہا کہ ” حضرت عیسیٰ یہاں نہیں ہیں مگر وہ زندہ ہیں۔ جاؤ اور حضرت عیسیٰ کے تمام حواریوں کو بتادو کہ وہ انہیں دوبارہ ملیں گے ۔ ماریا اب افسردہ نہیں تھی۔ حضرت عیسیٰ کا انتقا ل نہیں ہوا تھا۔ وہ زندہ تھے وہ واپس بھاگی تاکہ وہ اس زبردست خبر کو سب کوبتا سکے ۔

ایسٹر کا دوسرا دن
پہلے تو حضرت عیسیٰ کے کسی بھی حواریوں نے اس بات پر یقین نہیں کیا۔ مگر وہ صحیح تھیں۔ حضرت عیسیٰ دوبارہ ان سے ملنے کے لئے آئے ۔وہ سب کے سامنے زندہ کھڑے ہوئے تھے ۔۴۰ دنوں کے بعد حضرت عیسیٰ اپنے حواریوں کے ساتھ ایک بڑے پہاڑ کے پاس گئے۔ انھوں نے اپنا ہاتھ اٹھایااور ان کو مبارک باد دی ۔ ” انھوں نے کہا کہ سب کو میرے بارے میں بتا دو۔” پھر وہ آسما ن پر ددبارہ اُٹھا لئے گئے ۔
اُس دن کو کرسٹی حیمل فارٹسد اگ یعنی { اس دن کویوم آسمانی بھی کہتے ہیں} بادل کے ایک ٹکڑے نے ان کو ڈھانپ لیا تاکہ وہ ان کو نہ دیکھ سکیں۔ وہ کافی دیر تک وہا ں کھڑے رہے اور آسمان کی جانب دیکھتے رہے۔ اچانک دو فرشتے ان کے درمیان آ موجود ہوئے ۔ تم لوگ یہاں کیوں کھڑے ہو اور آسمان کی طرف کیوں دیکھ رہے ہو؟ انہوں نے پوچھا ۔ حضرت عیسیٰ آسمان پر چلے گئے ہیں ۔ایک دن وہ اسی راستے واپس آئیں گے جس طرح انہوں نے آج تمہیں چھوڑا ہے۔ تب عیسیٰ کے حواری خوشی سے بھرے دل کے ساتھ شہر کے جانب چلے گئے ۔عیسیٰ نے ان کو بہت کچھ سکھایا تھا ۔ ان کو یاد تھا کہ انھوں نے کہا تھا ” کبھی پریشان مت ہونا مجھ پر اور خدا پر بھروسہ رکھو ۔ خدا کے گھر میں بہت سے کمرے ہیں ۔ میں تمہارے لئے ایک کمرہ تیار رکھوں گا۔ ایک دن میں دوبارہ واپس آ ؤں گا اور تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤں گا تاکہ تم بھی وہاں رہ سکو جہاں میں رہتا ہوں”۔

Illustrajoner fra Adobe Stock